Ticker

6/recent/ticker-posts

قفس ایک تلخ ترین باب

قفس' دنیوی زندگی کا تلخ ترین باب ہے، یہاں مطلق آزادی کا کوئی تصوّر نہیں۔ فاتح بھی مقیّد ہے اور مفتوح بھی پابجولاں، عقل مند کی ذہانت بھی محدود ہے اور جواں مرد بہادر کی شجاعت بھی۔ ہواؤں کے دوش پر سواری کرنے والا انسان خلاباز بن چکا ہے مگر اب بھی قفس سے چھٹکارہ نہیں، زمین و آسمان کے حدود عبور کرلینا انسان کی استطاعت سے اب بھی باہر ہے۔ یہ عالم پُراسرار ہے، یہاں غلاف پر غلاف چڑھ  ہیں، اندھیرے پر مزید اندھیروں کا سایہ ہے، قفس در قفس کا سلسلہ ہے۔ ایک غلاف ہٹتا ہے تو دوسرا غلاف سر اٹھاتا ہے، اندھیرا چَھٹتا ہے تو یکے بعد دیگرے اندھیروں کی یلغار ہوتی ہے، ایک قفس کھلتا ہے تو اسیرِ زندگی دوسرے قفس میں داخل ہوجاتا ہے۔ ستم یہ ہے کہ پنجرے میں رہنے والے آزادی کا جشن مناتے ہیں، دورِ غلامی میں سانس لینے والے اپنی حرّیّت پر فخر کرتے ہیں، زنجیروں میں جکڑے ہوے قیدی' خودمختاری کا دعویٰ کرتے ہیں اور بندشوں میں گِھرے ہوے بےبس انسان جمہوریت کی شان میں قصیدے پڑھتے ہیں۔ انسانوں کی ایک نرالی قسم تو وہ بھی ہے جو ان گنت پنجروں کے موجودگی کے باوجود مزید پنجروں کی تعمیر میں مشغول رہتے ہیں، ان کا بَس چلے تو وہ سانس لینے پر بھی پابندی عائد کردیں، انہوں نے اپنے مفاد کے خاطر انسانوں کو چھوٹے چھوٹے گروہوں میں تقسیم کردیا ہے، وہ جب چاہتے ہیں ایک گروہ کو دوسرے گروہ سے لڑوادیتے ہیں، خون بہتا ہے اور سیادت و قیادت کی فصل سیراب ہوتی ہے۔ پنجرے ہزار سہی، قفس خطرناک سہی، زنداں کی دیواریں مضبوط سہی مگر ان تمام کی کمزوری یہ ہے کہ سب عارضی ہے، فانی ہے اور فطرت کا قانون ان پر بھی نافذ ہوتا ہے، فطرت کہتی ہے پیالہ لبالب بھرنے کے بعد چھلک جائے گا، صبر کا پیمانہ کبھی تو لبریز ہوگا، ندی جب خطرے کے نشان سے اوپر بہنے لگے تو تباہی ضرور آئے گی تب تک پرندہ فریاد کرے گا
آزاد مجھ کو کردے او قید کرنے والے 
میں بےزباں ہوں قیدی مجھے چھوڑ کر دعا لے
✍: - تابش سحر

ایک تبصرہ شائع کریں

1 تبصرے