Ticker

6/recent/ticker-posts

ایک عرض ملی قائدین کی خدمت میں


: آپ اپنے سیاسی افکار کے مطابق جس طرح‘ جب اور جیسا ردعمل ظاہر کرنا چاہتے ہیں وہ کرتے ہیں۔کوئی آپ کو اپنی راہ بدلنے پر مجبور نہیں کرسکتا۔۔ ایسا آپ اپنے پیروکاروں کو نظر میں رکھ کر کرتے ہوں گے۔لیکن کیا اللہ کے رسول کی ذات گرامی ایسی نہیں ہے کہ جس کے سوال پر آپ سب یکجا ہوکر آواز بلند کریں؟ ہم ہندوستانیوں کو بجا طور پر اس نکتہ پر قائم رہنا چا ہئے کہ ہمارے اندرونی معاملات میں کسی بھی ملک کو مداخلت کرنے یا ردعمل ظاہر کرنے کا حق نہیں ہے۔۔ مسائل سے ہم خود نپٹنے کے اہل ہیں۔

لیکن کیا واقعی شان رسول کا معاملہ کسی بھی ملک کا اندرونی معاملہ ہوسکتا ہے؟ اگر ایسا ہوتا تو خود ہماری حکومت‘ ہماری وزارت خارجہ اورعرب ملکوں میں ہمارے سفیر سب سے پہلے یہی کہتے کہ یہ ہمارا اندرونی معاملہ ہے۔یہ اس حکومت کی 'دانشمندی' ہے کہ اس نے عرب ممالک کے رد عمل پر یہ بات نہیں کہی۔بلکہ بیان جاری کرکے تمام مذاہب کے احترام کے اصول پر کاربند رہنے کا اعادہ کیا۔

اگر ہمارے تمام ملی قائدین کم سے کم رسول اکرم کی ذات گرامی کے سوال پر یک آواز ہوکر وہی رد عمل ظاہر کرتے جو دس دن بعد عربوں کو کرنا پڑا تو اس کا اثر بھی ان ملکوں کے رد عمل کے اثر سے کم نہ ہوتا۔۔ وقت ملے تو سوچئے گا ضرور۔۔۔ اور ہاں اپنے نوجوانوں کی صلاحیت اور طاقت کو برباد ہونے سے بچانے کا اس سے ضروری وقت اور کب آئے گا؟غیر منظم مظاہروں کا نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔اب آپ کی بصیرت کا امتحان ہے۔۔۔

ودود ساجد صاحب

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے