Ticker

6/recent/ticker-posts

قرآن کریم کی چند متفرق آیتوں کا خلاصہ

آج یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ تعدّدِ ازدواج اسلام کی ایجاد ہے جبکہ تاریخ سے تھوڑی سی بھی وابستگی یہ بتاتی ہے کہ تعدّدِ ازدواج کی رسم اسلام سے قبل ہر مذہب اور ریاست میں رائج تھی کیوں کہ یہ ایک فطری تقاضہ ہے، اس سے فرار اختیار کرنا بےراہ روی کو جنم دیتا ہے۔ ہاں یہ بات ضرور ہے کہ پہلے بیویوں کے درمیان انصاف کا کوئی پاس و لحاظ نہیں رکھا جاتا تھا، اسلام نے مردوں کو سختی کے ساتھ پابند کیا کہ وہ اپنی بیویوں کے ساتھ عدل و انصاف کا معاملہ کرے بصورتِ دیگر ایک ہی پر اکتفا کریں۔ تعدّدِ ازدواج میں الّٰلہ تعالیٰ نے برکتیں رکھی ہیں اور اس سے کئی مسائل حل ہوجاتے ہیں مگر آج کی جدّت پسند دنیا میں ایک سے زائد عورتوں کے ساتھ بےنکاحی زندگی گزارنا تو فیشن ہے اور ایک سے زیادہ نکاح کرنا معیوب سمجھا جاتا ہے۔ {النساء 3}

دورِ نبوّت میں اوس بن ثابتؓ کا انتقال ہوا انہوں نے اپنے پیچھے دو لڑکیاں، ایک نابالغ لڑکا اور ایک بیوی وارث چھوڑے مگر عربوں کے ظالمانہ دستور کے مطابق مالِ وراثت پر اوس بن ثابت کے دو چچازاد بھائیوں نے قبضہ کرلیا کیوں کہ عورت ان کے نزدیک مستحق وراثت نہیں تھی اور لڑکا نابالغ ہونے کے سبب محرور قرار پایا۔ اوس بن ثابت کی بیوہ نے دربارِ رسالت میں شکایت کی اس موقع پر یہ آیت نازل ہوی "مردوں کا بھی حصہ ہے اس {مال} میں جو والدین یا قرابت دار چھوڑ جائیں اور عورتوں کا بھی حصہ ہے اس {مال} میں جو والدین یا قرابت دار چھوڑ جائیں۔" آیتِ مبارکہ نے جاہلی صنفی تفریق ختم کرتے ہوے عورت کو بھی استحقاقِ وراثت بخشا اور بالغ نابالغ کی تقسیم بھی کالعدم قرار پائی۔ پھر اگلے رکوع میں تقسیمِ وراثت کا آئین پیش کیا مگر کیسی بدقسمتی ہے کہ ہم قرآنی آئین کو پسِ پشت ڈال کر اپنے طور پر وراثت کا مال تقسیم کرتے ہیں۔ {النساء 7}

"ان کے ساتھ بھلے طریقہ سے زندگی گزارو" یہ خدائی حکم دنیا کے تمام شوہروں کے لیے ہیں جن کے حبالۂِ عقد میں اللّٰہ کی بندیاں ہیں۔ بعض لوگ قوّام ہونے کا مطلب یہ سمجھ لیتے ہیں کہ وہ اپنی منکوحہ کے مالک بن گئے ہیں اب چاہے جس طرح کا برتاؤ اختیار کرے کوئی مضائقہ نہیں حالانکہ شریعت نے نرمی کا حکم دیا۔ پیغمبرؐ اپنی زوجہ کے ناز اٹھاتے تھے اور آج مرد حضرات گھر کی چہار دیواری کے درمیان خود کو بادشاہ سمجھ کر ڈکٹیٹرشپ کا نمونہ پیش کرتے ہیں، ذرا ذرا سی بات پر ناک بھوں چڑھاتے ہیں اور خواتین' مومنوں کے گھروں میں وہ قرض اتارتی ہیں جو واجب بھی نہیں تھے۔ {النساء 19}

خواتینِ اسلام کے ذہن میں یہ بات آئی کہ مرد حضرات' غزوات میں شرکت کرتے ہیں اور ہم شرکت سے قاصر ہیں مزید بر آں وراثت میں مردوں کے مقابلے میں ہمارا نصف حصہ مقرر ہے اس پر آیتِ کریمہ نازل ہوی "اور تم ایسے کسی معاملے میں برتری کی تمنا نہ کرو جس میں اللّٰہ تعالیٰ نے تم میں سے بعض کو بعض پر فوقیت بخشی ہے۔" اللّٰہ نے مرد کو قوّام بنایا بعض دینی امور میں اسے برتری حاصل ہے تو اس پر تمہاری نگاہ نہیں ہونی چاہیے کیوں کہ جب خدا نے فوقیت بخشی ہے تو وہ وجوہات بھی خوب جانتا ہے۔ فوقیت یا قوّامیت' اضافی ذمّےداریوں کا تقاضہ کرتی ہے جن میں بعض ذمےداریاں تو ایسی ہیں جن کا تحمّل خواتین کے بس میں نہیں لہذا خدا نے ہر دو صنف کے حصے میں طاقت و قوت کے بقدر ذمےداریاں لکھ دی ہیں سو اب مزید کی تمنا کرنا خود کو مشقت میں ڈال دینے کے مترادف ہے۔ ہاں! اعمال و ماٰل کے اعتبار سے کوئی صنفی تفریق نہ ہوگی جو جیسے اعمال لے کر آئے گا ویسا ہی صلہ پائے گا۔ آج حقوقِ نسواں کے نام نہاد علمبردار خواتین کے حق میں جو کچھ بھی کرتے ہیں وہ خواتین کا استحصال ہی تو ہے۔ {النساء 32}

موت ایک ایسی اٹل ہے جس کا آج تک کوئی انسان منکر نہیں، ایجادات کی دنیا میں تہلکہ مچانے والا انسان تاحال موت کا علاج دریافت نہ کرسکا اور نہ ہی کبھی دریافت کرسکے گا کیوں کہ موت ایک اٹل حقیقت ہے جسے کوئی نہیں روک سکتا۔ انسان قلعہ بند ہوجائے یا محفوظ ترین مقام پر روپوش ہوجائے تو بھی موت اپنے متعینہ وقت پر اس کا دروازہ کھٹکھٹائے گی اور پھر سب کچھ دھرا کا دھرا رہ جائے گا لہذا عقل مند ہے وہ شخص جو موت سے پہلے موت کی تیاری کرلے۔ 
{النساء 78}

صرف تلاوتِ قرآن مطلوب نہیں بلکہ تدبّرِ قرآن بھی مطلوب ہے، تدبّر کے معنیٰ ہے غور و فکر کرنا۔ محض تلاوت کرنے سے نیکیاں تو مل جائے گی لیکن انسان قرآن کے دیگر ثمرات سے محروم ہی رہے گا۔ تدبّرِ قرآن کا فائدہ یہ ہوگا کہ دل میں خدا کی عظمت پیدا ہوگی، احکاماتِ شرعیہ کا علم ہوگا، جہالت کے اندھیرے کافور ہوں گے، دل منوّر ہوگا اور روح کو غذا ملے گی۔ قرآن کا مطلوبہ انسان بننے کے لیے تدبّرِ قرآن ناگزیر ہے اسی لیے قرآن کہتا ہے "کیا یہ لوگ قرآنِ کریم میں غور وفکر نہیں کرتے؟" آیتِ کریمہ سے ایک بات یہ بھی معلوم ہوی کہ تدبّرِ قرآن کی یہ دعوت' خاص و عام کے لیے ہے۔ {النساء 82}

✍: - تابش سحر

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے